EN हिंदी
مرزا محمد تقی ہوسؔ شیاری | شیح شیری

مرزا محمد تقی ہوسؔ شیر

19 شیر

آشنا کوئی نظر آتا نہیں یاں اے ہوسؔ
کس کو میں اپنا انیس کنج تنہائی کروں

مرزا محمد تقی ہوسؔ




اے آفتاب ہادیٔ کوئے نگار ہو
آئے بھلا کبھی تو ہمارے بھی کام دن

مرزا محمد تقی ہوسؔ




دیکھیں کیا اب کے اسیری ہمیں دکھلاتی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ پھر فصل بہار آتی ہے

مرزا محمد تقی ہوسؔ




دل میں اک اضطراب باقی ہے
یہ نشان شباب باقی ہے

مرزا محمد تقی ہوسؔ




ہم گئے تھے اس سے کرتے شکوۂ درد فراق
مسکرا کر اس کو دیکھا سب گلا جاتا رہا

مرزا محمد تقی ہوسؔ




ہماری دیکھیو غفلت نہ سمجھے وائے نادانی
ہمیں دو دن کے بہلانے کو عمر بے مدار آئی

مرزا محمد تقی ہوسؔ




ہوس ہم پار ہویں کیونکہ دریائے محبت سے
قضا نے بادبان کشتئ تدبیر کو توڑا

مرزا محمد تقی ہوسؔ




لطف شب مہ اے دل اس دم مجھے حاصل ہو
اک چاند بغل میں ہو اک چاند مقابل ہو

مرزا محمد تقی ہوسؔ




ماتھے پہ لگا صندل وہ ہار پہن نکلے
ہم کھینچ وہیں قشقہ زنار پہن نکلے

مرزا محمد تقی ہوسؔ