EN हिंदी
میکش اکبرآبادی شیاری | شیح شیری

میکش اکبرآبادی شیر

14 شیر

آپ کی میری کہانی ایک ہے
کہئے اب میں کیا سناؤں کیا سنوں

میکش اکبرآبادی




بیٹھے رہے وہ خون تمنا کئے ہوئے
دیکھا کئے انہیں نگہ التجا سے ہم

میکش اکبرآبادی




چراغ کشتہ لے کر ہم تری محفل میں کیا آتے
جو دن تھے زندگی کے وہ تو رستے میں گزار آئے

میکش اکبرآبادی




ہم نے لالے کی طرح اس دور میں
آنکھ کھولی تھی کہ دیکھا دل کا خوں

میکش اکبرآبادی




کچھ اس طرح تری الفت میں کاٹ دی میں نے
گناہ گار ہوا اور نہ پاکباز رہا

میکش اکبرآبادی




مرے فسوں نے دکھائی ہے تیرے رخ کی سحر
مرے جنوں نے بنائی ہے تیرے زلف کی شام

میکش اکبرآبادی




نہیں ہے دل کا سکوں قسمت تمنا میں
تمہیں بھی دل کی تمنا بنا کے دیکھ لیا

میکش اکبرآبادی




نزع تک دل اس کو دہرایا کیا
اک تبسم میں وہ کیا کچھ کہہ گئے

میکش اکبرآبادی




پہنچ ہی جائے گا یہ ہاتھ تیری زلفوں تک
یوں ہی جنوں کا اگر سلسلہ دراز رہا

میکش اکبرآبادی