بے سایہ نہ ہو جائے کہیں گھر مرا یا رب
کچھ دن سے میں جھکتا یہ شجر دیکھ رہا ہوں
جاوید نسیمی
چاند کا قرب لگا کیسا چلو پوچھ آئیں
آسمانوں کے سفر سے وہ پلٹ آیا ہے
جاوید نسیمی
در بدر ہو گئے تعبیر کی دھن میں کتنے
ان حسیں خوابوں سے بڑھ کر کوئی سفاک نہیں
جاوید نسیمی
دیکھنا چھوڑے نہیں خواب مری آنکھوں نے
پورا ہر چند کوئی خواب نہیں ہو پایا
جاوید نسیمی
ایک چہرہ ہے جو آنکھوں میں بسا رہتا ہے
اک تصور ہے جو تنہا نہیں ہونے دیتا
جاوید نسیمی
گرنے والا ہے مرا بوجھ سنبھالے کوئی
اپنے آنسو مری پلکوں سے اٹھا لے کوئی
جاوید نسیمی
جسے نہ آنے کی قسمیں میں دے کے آیا ہوں
اسی کے قدموں کی آہٹ کا انتظار بھی ہے
جاوید نسیمی
مٹ جانے کے آثار وراثت میں ملے ہیں
گرتے در و دیوار وراثت میں ملے ہیں
جاوید نسیمی
مدت ہوئی کہ زندہ ہوں دیکھے بغیر اسے
وہ شخص میرے دل سے اتر تو نہیں گیا
جاوید نسیمی