آؤ خوش ہو کے پیو کچھ نہ کہو واعظ کو
میکدے میں وہ تماشائی ہے کچھ اور نہیں
انجم اعظمی
اب نہ وہ جوش وفا ہے نہ وہ انداز طلب
اب بھی لیکن ترے کوچے سے گزر ہوتا ہے
انجم اعظمی
بٹھا کے سامنے تم کو بہار میں پی ہے
تمہارے رند نے توبہ بھی روبرو کر لی
انجم اعظمی
دل نہ کعبہ ہے نے کلیسا ہے
تیرا گھر ہے حریم مریم ہے
انجم اعظمی
غلط ہے جذبۂ دل پر نہیں کوئی الزام
خوشی ملی نہ ہمیں جب تو غم کی خو کر لی
انجم اعظمی
علاج اس کا گزر جانا ہے جاں سے
گزر جانے کا جاں سے ڈر رہے گا
انجم اعظمی
خاک نے کتنے بد اطوار کئے ہیں پیدا
یہ نہ ہوتے تو اسی خاک سے کیا کیا ہوتا
انجم اعظمی
خالی بھی تو کر خانۂ دل دنیا سے
اس گھر میں مری جان خدا آئے گا
انجم اعظمی
کوئی تو خیر کا پہلو بھی نکلے
اکیلا کس طرح یہ شر رہے گا
انجم اعظمی