ایک جہان لا یعنی غرقاب ہوا
ایک جہان معنی کی تشکیل ہوئی
امیر حمزہ ثاقب
خبر بھی ہے تجھے اس دفتر محبت کو
جلانے جلنے میں کیا کیا زمانے لگتے ہیں
امیر حمزہ ثاقب
لہو جگر کا ہوا صرف رنگ دست حنا
جو سودا سر میں تھا صحرا کھنگالنے میں گیا
امیر حمزہ ثاقب
مکاں اجاڑ تھا اور لا مکاں کی خواہش تھی
سو اپنے آپ سے باہر قیام کر لیا ہے
امیر حمزہ ثاقب
میری برہنہ پشت تھی کوڑوں سے سبز و سرخ
گورے بدن پہ اس کے بھی نیلا نشان تھا
امیر حمزہ ثاقب
میری دنیا اسی دنیا میں کہیں رہتی ہے
ورنہ یہ دنیا کہاں حسن طلب تھی میرا
امیر حمزہ ثاقب
پھر بدن میں تھکن کی گرد لیے
پھر لب جوئے بار ہیں ہم لوگ
امیر حمزہ ثاقب
روشن الاؤ ہوتے ہی آیا ترنگ میں
وہ قصہ گو خود اپنے میں اک داستان تھا
امیر حمزہ ثاقب
تہہ کر چکے بساط غم و فکر روزگار
تب خانقاہ عشق و محبت میں آئے ہیں
امیر حمزہ ثاقب