اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ہیں
اس کو کھو کر تو مرے پاس رہا کچھ بھی نہیں
اختر شمار
ابھی سفر میں کوئی موڑ ہی نہیں آیا
نکل گیا ہے یہ چپ چاپ داستان سے کون
اختر شمار
میں گھر کو پھونک رہا تھا بڑے یقین کے ساتھ
کہ تیری راہ میں پہلا قدم اٹھانا تھا
اختر شمار
میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشا نہ بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلا کچھ بھی نہیں
اختر شمار
میں زندگی کے سفر میں تھا مشغلہ اس کا
وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کے مجھ کو گنوا دیا کرتا
اختر شمار
میری رسوائی اگر ساتھ نہ دیتی میرا
یوں سر بزم میں عزت سے نکلتا کیسے
اختر شمار
مری نگاہ کی وسعت بھی اس میں شامل کر
مری زمین پہ تیرا یہ آسماں کم ہے
اختر شمار
مدتوں میں آج دل نے فیصلہ آخر دیا
خوبصورت ہی سہی لیکن یہ دنیا جھوٹ ہے
اختر شمار
پہاڑ بھانپ رہا تھا مرے ارادے کو
وہ اس لیے بھی کہ تیشہ مجھے اٹھانا تھا
اختر شمار