EN हिंदी
آفتاب اقبال شمیم شیاری | شیح شیری

آفتاب اقبال شمیم شیر

9 شیر

دل اور دنیا دونوں کو خوش رکھنے میں
اپنے آپ سے دوری تو ہو جاتی ہے

آفتاب اقبال شمیم




عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے
دنیا غیر ضروری تو ہو جاتی ہے

آفتاب اقبال شمیم




کہا تھا کس نے کہ شاخ نحیف سے پھوٹیں
گناہ ہم سے ہوا بے گناہیوں جیسا

آفتاب اقبال شمیم




خواب کے آگے شکست خواب کا تھا سامنا
یہ سفر تھا مرحلہ در مرحلہ ٹوٹا ہوا

آفتاب اقبال شمیم




کیا رات کے آشوب میں وہ خود سے لڑا تھا
آئینے کے چہرے پہ خراشیں سی پڑی ہیں

آفتاب اقبال شمیم




لفظوں میں خالی جگہیں بھر لینے سے
بات ادھوری، پوری تو ہو جاتی ہے

آفتاب اقبال شمیم




لمحہ منصف بھی ہے مجرم بھی ہے مجبوری کا
فائدہ شک کا مجھے دے کے بری کر جائے

آفتاب اقبال شمیم




پھر سے تالیف دل ہو پھر کوئی
اس صحیفے کی رونمائی کرے

آفتاب اقبال شمیم




یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی
جو جا چکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا

آفتاب اقبال شمیم