جو بھی یکجا ہے بکھرتا نظر آتا ہے مجھے
جانے یوں ہے بھی کہ ایسا نظر آتا ہے مجھے
ابرار احمد
بھر لائے ہیں ہم آنکھ میں رکھنے کو مقابل
اک خواب تمنا تری غفلت کے برابر
ابرار احمد
ہر رخ ہے کہیں اپنے خد و خال سے باہر
ہر لفظ ہے کچھ اپنے معانی سے زیادہ
ابرار احمد
ہر ایک آنکھ میں ہوتی ہے منتظر کوئی آنکھ
ہر ایک دل میں کہیں کچھ جگہ نکلتی ہے
ابرار احمد
ہم یقیناً یہاں نہیں ہوں گے
غالباً زندگی رہے گی ابھی
ابرار احمد
ہم اپنی راہ پکڑتے ہیں دیکھتے بھی نہیں
کہ کس ڈگر پہ یہ خلق خدا نکلتی ہے
ابرار احمد
گنجائش افسوس نکل آتی ہے ہر روز
مصروف نہیں رہتا ہوں فرصت کے برابر
ابرار احمد
گو فراموشی کی تکمیل ہوا چاہتی ہے
پھر بھی کہہ دو کہ ہمیں یاد وہ آیا نہ کرے
ابرار احمد
فراق و وصل سے ہٹ کر کوئی رشتہ ہمارا ہے
کہ اس کو چھوڑ پاتا ہوں نہ اس کو تھام رکھتا ہوں
ابرار احمد