EN हिंदी
یہ خواب سارے | شیح شیری
ye KHwab sare

نظم

یہ خواب سارے

ضیا فاروقی

;

یہ خواب سارے
ابھی جو آنکھوں میں سو رہے ہیں

یہ جاگ اٹھے تو کیا کرو گے
تو کیا کرو گے جو خواب سارے

تمہاری آنکھوں سے باہر آ کر
تخئیل کی بیکراں فضا میں

کسی سنہرے حسین لمحے کو قید کر لیں
کسی کی زلفوں میں پھول ٹانکے

کس کے ہونٹوں پہ گنگنائیں
کسی کے شانوں پہ ہاتھ رکھ دیں

کسی کے پہلو میں بیٹھ جائیں
تو کیا کرو گے

تو کیا کرو گے جو خواب سارے
پلٹ کے ماضی میں لوٹ جائیں

ہر ایک منظر ہر ایک پیکر
ہر ایک کوچہ ہر اک ڈگر پر

جنوں بداماں تمہیں نچائیں
تمہاری وحشت کو آزمائیں

کسی کھنڈر کی شکستہ چوکھٹ پہ بیٹھ جائیں
سیاہ طاقوں پہ مومی شمعیں

تمہاری یادوں میں جھلملائیں
کوئی ہیولیٰ کوئی سراپا

تمہیں پکارے
تمہاری آنکھوں پہ ہاتھ رکھ دے

گلاب ڈالی کا ہار کوئی
تمہارے تلووں میں گدگدائے

لہریا آنچل کا کوئی ٹکڑا
ہوا میں اڑتا ہوا سا آئے

تمہارے اشکوں سے بھیگ جائے
تو کیا کرو گے

تو کیا کرو گے جو خواب سارے
تمہاری آنکھوں سے اشک بن کر

تمہارے دامن پہ پھیل جائیں
لہو رلائیں

تو کیا کرو گے جو خواب سارے
پلٹ کے ماضی میں لوٹ جائیں!