EN हिंदी
یاد | شیح شیری
yaad

نظم

یاد

ضیا فتح آبادی

;

وہ نغمے وہ مناظر وہ بہاریں یاد ہیں مجھ کو
یہی وہ نقش ہیں جو مٹ نہیں سکتے مٹانے سے

وہ راتیں اور وہ ساون کی پھواریں یاد ہیں مجھ کو
یہی افسانے اکثر کہتا رہتا ہوں زمانے سے

وہ تیرا مسکرا کر چاند کو تابندگی دینا
شراب عشق سے مخمور ہو جانا فضاؤں کا

وہ تیری مست آنکھوں کا نوید زندگی دینا
وہ اکثر کھیلنا زلف پریشاں سے ہواؤں کا

مرا دل ہو گیا ہے گردش ایام سے واقف
بلند و پست عالم پھر رہے ہیں میری آنکھوں میں

مذاق دل بری ہے عشق کے پیغام سے واقف
تصور ہے مرا کھویا ہوا سا تیری آنکھوں میں

تو مجھ سے دور ہے لیکن تجھے میں یاد کرتا ہوں
نہ جب فریاد کرتا تھا نہ اب فریاد کرتا ہوں