EN हिंदी
وہ مر گئی تھی | شیح شیری
wo mar gai thi

نظم

وہ مر گئی تھی

عادل منصوری

;

اس کے زہری ہونٹ کالے پڑ گئے تھے
اس کی آنکھوں میں

ادھوری خواہشوں کے دیوتاؤں کے
جنازے گڑ گئے تھے

اس کے چہرے کی شفق کا رنگ
گھائل ہو چکا تھا

اس کے جلتے جسم کی خوشبو کا سورج
پربتوں کی چوٹیوں سے نیچے گر کر

ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا تھا
اس کی چھاتی پر

سلگتے چاند کے سایوں کے پتھر
راستہ روکے کھڑے تھے

اس کے جلتے جسم کے جھلسے ہوئے صحرا میں
پیلی حسرتوں کے آسماں

پیاسے پڑے تھے
بند کمرے میں

مری موجودگی سے ڈر گئی تھی
وہ مر گئی تھی