EN हिंदी
وہ لڑکی | شیح شیری
wo laDki

نظم

وہ لڑکی

ندا فاضلی

;

وہ لڑکی یاد آتی ہے
جو ہونٹوں سے نہیں پورے بدن سے بات کرتی تھی

سمٹتے وقت بھی چاروں دشاؤں میں بکھرتی تھی
وہ لڑکی یاد آتی ہے

وہ لڑکی اب نہ جانے کس کے بستر کی کرن ہوگی
ابھی تک پھول کی مانند ہوگی یا چمن ہوگی

سجیلی رات
اب بھی

جب کبھی گھونگھٹ اٹھاتی ہے
لچکتی کہکشاں جب بنتے بنتے ٹوٹ جاتی ہے

کوئی البیلی خوشبو بال کھولے مسکراتی ہے
وہ لڑکی یاد آتی ہے