EN हिंदी
وطن آشوب | شیح شیری
watan-ashob

نظم

وطن آشوب

اسرار الحق مجاز

;

سبزہ و برگ و لالہ و سرو و سمن کو کیا ہوا
سارا چمن اداس ہے ہائے چمن کو کیا ہوا

اک سکوت ہر طرف ہوش ربا و ہولناک
خلد وطن کے پاسباں خلد وطن کو کیا ہوا

رقص طرب کدھر گیا نغمہ طراز کیا ہوئے
غمزہ و ناز کیا ہوئے عشوہ و فن کو کیا ہوا

جس کی نوائے دلستاں زخمۂ ساز شوق تھی
کوئی بتاؤ اس بت غنچہ دہن کو کیا ہوا

چشمک دم بدم نہیں مشق خرام و رم نہیں
میرے غزال کیا ہوئے میرے ختن کو کیا ہوا

چھائی ہے کیوں فسردگی عالم حسن و عشق پر
آج وہ ''نل'' کدھر گئے آج ''دمن'' کو کیا ہوا

آنکھوں میں خوف و یاس ہے چہرہ اداس اداس ہے
عصر رواں کی لیلیٰ برقعہ فگن کو کیا ہوا

آہ خرد کدھر گئی آہ جنوں نے کیا کیا
آہ شباب خوگر دار و رسن کو کیا ہوا

کوئی بتائے عظمت خاک وطن کہاں ہے اب
کوئی بتائے غیرت اہل وطن کو کیا ہوا

کوہ وہی دمن وہی دشت وہی چمن وہی
پھر یہ مجازؔ جذبۂ حب وطن کو کیا ہوا