EN हिंदी
اسے میں نے نہیں دیکھا | شیح شیری
use maine nahin dekha

نظم

اسے میں نے نہیں دیکھا

عباس تابش

;

وہ کیسی ہے
اسے میں نے نہیں دیکھا

سنا ہے وہ زمیں زادی
دھنک سے اپنے خوابوں کے افق گل رنگ رکھتی ہے

مرے خاشاک سے آگے کسی منظر میں رہتی ہے
ہوا کے گھر میں رہتی ہے

وہ کس سورج کا حصہ ہے
وہ کس تارے کی مٹی ہے

اسے میں نے نہیں دیکھا
مری آنکھوں سے لے کر اس کی آنکھوں تک کسے معلوم ہے

کتنے ستارے ہیں
مجھے کیا علم وہ کس رنگ کے کپڑے پہنتی ہے

وہ خالی برتنوں میں اپنا دن کیسے بتاتی ہے
وہ خوشیاں ڈھونڈتی ہے اور خود کو بند الماری میں رکھ کر

بھول جاتی ہے
وہ گھر کے لان میں بیٹھی بہت کچھ سوچتی ہوگی

کہ میرا رنگ کیسا ہے
مری آنکھوں کے روشن قمقموں میں تاب کتنی ہے

مری شریان میں سہمے ہوئے بچوں پہ کیا گزری
وہ کس رستے پہ چل نکلے کہ اپنے گھر نہیں پہنچے

وہ اکثر سوچتی ہوگی
مرے کمرے میں بوڑھی فاحشہ تنہائی کے ہوتے

مرے دن کیسے کٹتے ہیں
مری بے خواب راتیں کن خیالوں میں گزرتی ہیں

کہاں عشق گریزاں کی کہانی ختم ہوتی ہے
وہ گھر کے لان میں بیٹھی یہی کچھ سوچتی ہوگی

کہ میرے نام کے پیچھے مری تصویر کیسی ہے
مرے خط بھی نہیں اس کے تصرف میں

کہ ان کو کھول کر میرے بدن کے راز تک پہنچے
مجھے اس نے نہیں دیکھا

نہ میں نے اس کو دیکھا ہے
نہ اس نے مجھ کو دیکھا ہے

مگر اپنی محبت میں عجب حسن توازن ہے
وہ اکثر سوچتی ہوگی

میں کتنا اپنے دفتر میں ہوں کتنا گھر کی خلوت میں
وہ مجھ کو مجھ پہ ہی تقسیم کر کے دیکھتی ہوگی

مجھے محسوس ہوتا ہے
کوئی دل چیرتی خوشبو مجھے آواز دیتی ہے

مگر آواز کے پیچھے کوئی چہرہ نہیں ہوتا
وہ مجھ کو دیکھ لیتی ہے

مگر میری بصارت میں مہک چہرہ نہیں پاتی
کہ خوشبو کس نے دیکھی ہے

صدا کو کس نے پکڑا ہے
مکانی دوریاں کیسی؟ زمانی قربتیں کیسی؟

وہ میرا جسم ہے لیکن اسے میں نے نہیں دیکھا