EN हिंदी
اکتائے ہوئے بدن | شیح شیری
uktae hue badan

نظم

اکتائے ہوئے بدن

منور رانا

;

عمر کی ڈھلتی ہوئی دوپہر میں
ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کا احساس بھی

آدمی کو تازہ دم کر دیتا ہے
اور اگر سچ مچ خنک ہوائیں

تھکن نصیب جسم سے کھیلنے لگیں
تو شب کی تاریکی خضاب جیسی دکھائی دیتی ہے

آس پاس گردش کرتا ہوا سناٹا
آرزوؤں کی گہما گہمی سے گونجنے لگتا ہے

خواب تعبیروں کی تلاش میں بھٹکنے لگتے ہیں
بدن کی اکتاہٹیں چوپال کے شور شرابے میں ڈوب جاتی ہیں

ڈھلتے ہوئے سورج کی لالی سے سہاگ جوڑے کی خوشبو
آنے لگتی ہے

لیکن خوابیدہ آرزوؤں کی شاہراہ سے گزرتے ہوئے
لوگ

اپنی منزل کا پتا بھول جاتے ہیں
اسی پتا بھولنے کو سماج

دھرم اور مذہب کی آڑ لے کر
ایسی بے ہودہ گالیاں دیتا ہے

جو طوائفوں کے محلوں میں بھی نہیں
سنائی دیتیں