EN हिंदी
ٹوٹی جہاں جہاں پہ کمند | شیح شیری
TuTi jahan jahan pe kamand

نظم

ٹوٹی جہاں جہاں پہ کمند

فیض احمد فیض

;

رہا نہ کچھ بھی زمانے میں جب نظر کو پسند
تری نظر سے کیا رشتۂ نظر پیوند

ترے جمال سے ہر صبح پر وضو لازم
ہر ایک شب ترے در پر سجود کی پابند

نہیں رہا حرم دل میں اک صنم باطل
ترے خیال کے لات و منات کی سوگند

مثال زینۂ منزل بکار شوق آیا
ہر اک مقام کہ ٹوٹی جہاں جہاں پہ کمند

خزاں تمام ہوئی کس حساب میں لکھیے
بہار گل میں جو پہنچے ہیں شاخ گل کو گزند

دریدہ دل ہے کوئی شہر میں ہماری طرح
کوئی دریدہ دہن شیخ شہر کے مانند

شعار کی جو مدارات قامت جاناں
کیا ہے فیضؔ در دل در فلک سے بلند