EN हिंदी
رقاصۂ حیات سے | شیح شیری
raqqasa-e-hayat se

نظم

رقاصۂ حیات سے

شکیل بدایونی

;

پھولوں پہ رقص اور نہ بہاروں پہ رقص کر
گلزار ہست و بود میں خاروں پہ رقص کر

ہو کر جمود گلشن جنت سے بے نیاز
دوزخ کے بے پناہ شراروں پہ رقص کر

شمع سحر فسون تبسم، حیات گل
فطرت کے ان عجیب نظاروں پہ رقص کر

تنظیم کائنات جنوں کی ہنسی اڑا
اجڑے ہوئے چمن کی بہاروں پہ رقص کر

سہمی ہوئی صدائے دل ناتواں نہ سن
بہکی ہوئی نظر کے اشاروں پر رقص کر

جو مر کے جی رہے تھے تجھے ان سے کیا غرض
تو اپنے عاشقوں کے مزاروں پہ رقص کر

ہر ہر ادا ہو روح کی گہرائیوں میں گم
یوں رنگ و بو کی راہ گزاروں پہ رقص کر

تو اپنی دھن میں مست ہے تجھ کو بتائے کون
تیری زمیں فلک ہے ستاروں پر رقص کر

اس طرح رقص کر کہ سراپا اثر ہو تو
کوئی نظر اٹھائے تو پیش نظر ہو تو