EN हिंदी
پگھلتا دھواں | شیح شیری
pighalta dhuan

نظم

پگھلتا دھواں

ندا فاضلی

;

دور شاداب پہاڑی پہ بنا اک بنگلہ
لال کھپریلوں پہ پھیلی ہوئی انگور کی بیل

صحن میں بکھرے ہوئے مٹی کے راجا رانی
منہ چڑھاتی ہوئی بچوں کو کوئی دیوانی

سیب کے اجلے درختوں کی گھنی چھاؤں میں
پاؤں ڈالے ہوئے تالاب میں کوئی لڑکی

گورے ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے تکیے کا غلاف
ان کہی باتوں کو دھاگوں میں سیے جاتی ہے

دل کے جذبات کا اظہار کیے جاتی ہے
گرم چولھے کے قریں بیٹھی ہوئی اک عورت

ایک پیوند لگی ساڑی سے تن کو ڈھانپے
دھندلی آنکھوں سے مری سمت تکے جاتی ہے

مجھ کو آواز پہ آواز دئیے جاتی ہے
اک سلگتی ہوئی سگریٹ کا بل کھاتا دھواں

پھیلتا جاتا ہے ہر سمت مرے کمرے میں