EN हिंदी
پتہ نہیں وہ کون تھا | شیح شیری
pata nahin wo kaun tha

نظم

پتہ نہیں وہ کون تھا

بشر نواز

;

پتہ نہیں وہ کون تھا
جو میرے ہاتھ

موگرے کی ڈال پنکھ مور کا تھما کے چل دیا
پتہ نہیں وہ کون تھا

ہوا کے جھونکے کی طرح جو آیا اور گزر گیا
نظر کو رنگ دل کو نکہتوں کے دکھ سے بھر گیا

میں کون ہوں
گزرنے والا کون تھا

یہ پھول پنکھ کیا ہیں کیوں ملے
یہ سوچتے ہی سوچتے تمام رنگ ایک رنگ میں اترتے گئے

۔۔۔۔۔۔سیاہ رنگ
تمام نکہتیں ادھر ادھر بکھر گئیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔خلاؤں میں
یقین ہے۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں گمان ہے

وہ کوئی میرا دشمن قدیم تھا
دکھا کے جو سراب میری پیاس اور بڑھا گیا

میں بے حساب آرزوؤں کا شکار
انتہائے شوق میں فریب اس کا کھا گیا

گمان۔۔۔ نہیں نہیں یقین ہے
وہ کوئی میرا دوست تھا

جو دو گھڑی کے واسطے ہی کیوں نہ ہو
نظر کو رنگ دل کو نکہتوں سے بھر گیا

پتہ نہیں کدھر گیا
میں اس کو ڈھونڈھتا ہوا

تمام کائنات میں
ادھر ادھر بکھر گیا