EN हिंदी
نمو | شیح شیری
numu

نظم

نمو

عبید اللہ علیم

;

میں وہ شجر تھا
کہ میرے سائے میں بیٹھنے اور شاخوں پہ جھولنے کی ہزاروں جسموں کو آرزو تھی

زمیں کی آنکھیں درازیٔ عمر کی دعاؤں میں رو رہی تھیں
اور سورج کے ہاتھ تھکتے نہیں تھے مجھ کو سنوارنے میں

کہ میں اک آواز کا سفر تھا
عجب شجر تھا

کہ اس مسافر کا منتظر تھا
جو میرے سائے میں آ کے بیٹھے تو پھر نہ اٹھے

جو میری شاخوں پہ آئے جھولے تو سارے موسم یہیں گزارے
مگر وہ پاگل ہوا کا جھونکا مگر وہ پاگل ہوا کا جھونکا

عجب مسافر تھا رہ گزر کا
جو چھوڑ آیا تھا کتنی شاخیں

مگر لگا یوں کہ جیسے اب وہ شکستہ تر ہے
وہ میرے خوابوں کا ہم سفر ہے

سو میں نے سائے بچھا دئیے تھے
تمام جھولے ہلا دئیے تھے

مگر وہ پاگل ہوا کا جھونکا مگر وہ پاگل ہوا کا جھونکا
عجب مسافر تھا رہ گزر تھا

کہ لمحے بھر میں گزر چکا تھا
میں بے نمو اور بے ثمر تھا

مگر میں آواز کا سفر تھا
سو میری آواز کا اجر تھا

عجب شجر تھا
عجب شجر ہوں

کہ آنے والے سہ کہہ رہا ہوں
اے میرے دل میں اترنے والے

اے مجھ کو شاداب کرنے والے
تجھے مری روشنی مبارک

تجھے مری زندگی مبارک