EN हिंदी
نذر دل | شیح شیری
nazr-e-dil

نظم

نذر دل

اسرار الحق مجاز

;

اپنے دل کو دونوں عالم سے اٹھا سکتا ہوں میں
کیا سمجھتی ہو کہ تم کو بھی بھلا سکتا ہوں میں

کون تم سے چھین سکتا ہے مجھے کیا وہم ہے
خود زلیخا سے بھی تو دامن بچا سکتا ہوں میں

دل میں تم پیدا کرو پہلے مری سی جرأتیں
اور پھر دیکھو کہ تم کو کیا بنا سکتا ہوں میں

دفن کر سکتا ہوں سینے میں تمہارے راز کو
اور تم چاہو تو افسانہ بنا سکتا ہوں میں

میں قسم کھاتا ہوں اپنے نطق کے اعجاز کی
تم کو بزم ماہ و انجم میں بٹھا سکتا ہوں میں

سر پہ رکھ سکتا ہوں تاج کشور نورانیاں
محفل خورشید کو نیچا دکھا سکتا ہوں میں

میں بہت سرکش ہوں لیکن اک تمہارے واسطے
دل بجھا سکتا ہوں میں آنکھیں بچا سکتا ہوں میں

تم اگر روٹھو تو اک تم کو منانے کے لئے
گیت گا سکتا ہوں میں آنسو بہا سکتا ہوں میں

جذب ہے دل میں مرے دونوں جہاں کا سوز و ساز
بربط فطرت کا ہر نغمہ سنا سکتا ہوں میں

تم سمجھتی ہو کہ ہیں پردے بہت سے درمیاں
میں یہ کہتا ہوں کہ ہر پردہ اٹھا سکتا ہوں میں

تم کہ بن سکتی ہو ہر محفل میں فردوس نظر
مجھ کو یہ دعویٰ کہ ہر محفل پہ چھا سکتا ہوں میں

آؤ مل کر انقلاب تازہ تر پیدا کریں
دہر پر اس طرح چھا جائیں کہ سب دیکھا کریں