EN हिंदी
نیا سفر | شیح شیری
naya safar

نظم

نیا سفر

ندا فاضلی

;

آسماں لوہا دشائیں پتھر
سرنگوں سارے کھجوروں کے درخت

کوئی حرکت نہ صدا
بجھ گئی بوڑھی پہاڑی پہ چمکتی ہوئی آگ!

تھم گئے پاک ستاروں سے برستے ہوئے راگ
پھر سے کاندھوں پہ جمالو سر کو

پھر سے جسموں میں لگا لو ٹانگیں
ڈھونڈ لو کھوئی ہوئی آنکھوں کو

اب کسی پر نہیں اترے گا صحیفہ کوئی