EN हिंदी
نئی تہذیب | شیح شیری
nai tahzib

نظم

نئی تہذیب

اکبر الہ آبادی

;

یہ موجودہ طریقے راہیٔ ملک عدم ہوں گے
نئی تہذیب ہوگی اور نئے ساماں بہم ہوں گے

نئے عنوان سے زینت دکھائیں گے حسیں اپنی
نہ ایسا پیچ زلفوں میں نہ گیسو میں یہ خم ہوں گے

نہ خاتونوں میں رہ جائے گی پردے کی یہ پابندی
نہ گھونگھٹ اس طرح سے حاجب روئے صنم ہوں گے

بدل جائے گا انداز طبائع دور گردوں سے
نئی صورت کی خوشیاں اور نئے اسباب غم ہوں گے

نہ پیدا ہوگی خط نسخ سے شان ادب آگیں
نہ نستعلیق حرف اس طور سے زیب رقم ہوں گے

خبر دیتی ہے تحریک ہوا تبدیل موسم کی
کھلیں گے اور ہی گل زمزمے بلبل کے کم ہوں گے

عقائد پر قیامت آئے گی ترمیم ملت سے
نیا کعبہ بنے گا مغربی پتلے صنم ہوں گے

بہت ہوں گے مغنی نغمۂ تقلید یورپ کے
مگر بے جوڑ ہوں گے اس لیے بے تال و سم ہوں گے

ہماری اصطلاحوں سے زباں نا آشنا ہوگی
لغات مغربی بازار کی بھاشا سے ضم ہوں گے

بدل جائے گا معیار شرافت چشم دنیا میں
زیادہ تھے جو اپنے زعم میں وہ سب سے کم ہوں گے

گزشتہ عظمتوں کے تذکرے بھی رہ نہ جائیں گے
کتابوں ہی میں دفن افسانۂ جاہ و حشم ہوں گے

کسی کو اس تغیر کا نہ حس ہوگا نہ غم ہوگا
ہوئے جس ساز سے پیدا اسی کے زیر و بم ہوں گے

تمہیں اس انقلاب دہر کا کیا غم ہے اے اکبرؔ
بہت نزدیک ہیں وہ دن کہ تم ہوگے نہ ہم ہوں گے