EN हिंदी
مسافر | شیح شیری
musafir

نظم

مسافر

اسرار الحق مجاز

;

مسافر یوں ہی گیت گائے چلا جا
سر رہ گزر کچھ سنائے چلا جا

تری زندگی سوز و ساز محبت
ہنسائے چلا جا رلائے چلا جا

ترے زمزمے ہیں خنک بھی تپاں بھی
لگائے چلا جا بجھائے چلا جا

کوئی لاکھ روکے کوئی لاکھ ٹوکے
قدم اپنے آگے بڑھائے چلا جا

حسیں بھی تجھے راستے میں ملیں گے
نظر مت ملا مسکرائے چلا جا

محبت کے نقشے تمنا کے خاکے
بنائے چلا جا مٹائے چلا جا

قدامت حدیں کھینچتی ہی رہے گی
قدامت کی بنیاد ڈھائے چلا جا

قسم شوق کی فطرت مضطرب کی
یوں ہی نت نئی دھن میں گائے چلا جا

جو پرچم اٹھا ہی لیا سرکشی کا!
اسے آسماں تک اڑائے چلا جا