EN हिंदी
مجھے جینا نہیں آتا | شیح شیری
mujhe jina nahin aata

نظم

مجھے جینا نہیں آتا

بشر نواز

;

میں جیسے درد کا موسم
گھٹا بن کر جو بس جاتا ہے آنکھوں میں

دھنک کے رنگ خوشبو نذر کرنے کی تمنا لے کے جس منظر تلک جاؤں
سیہ اشکوں کے گہرے کہر میں ڈوبا ہوا پاؤں

میں اپنے دل کا سونا
پیار کے موتی

ترستی آرزو کے پھول جس در پر سجاتا ہوں
وہاں جیسے مکیں ہوتا نہیں کوئی

بنا ہوں ایک مدت سے صدائے بازگشت ایسی
جو دیواروں سے ٹکرائے

ہراساں ہو کے لوٹ آئے
دھڑکتے دل کے سونے پن کو سونا اور کر جائے

میں اپنے آپ کو سنتا ہوں
اپنے آپ کو چھوتا ہوں

اپنے آپ سے ملتا ہوں خوابوں کے سہانے آئنہ گھر میں
تو میرا عکس مجھ پر مسکراتا ہے

یہ کہتا ہے
سلیقہ تجھ کو جینے کا نہ آنا تھا نہیں آیا

صدائیں پتھروں کی طرح مجھ پر
میرے خوابوں کے بکھرتے آئنہ گھر پر برستی ہیں

ادھر تارا ادھر جگنو
کہیں اک پھول کی پتی کہیں شبنم کا اک آنسو

بکھر جاتا ہے سب کچھ روح کے سنسان صحرا میں
میں پھر سے زندگی کرنے کے ارماں میں

اک اک ریزے کو چنتا ہوں سجاتا ہوں نئی مورت بناتا ہوں
دھنک کے رنگ خوشبو نذر کرنے کی تمنا میں قدم آگے بڑھاتا ہوں

تو اک بے نام گہری دھند میں سب ڈوب جاتا ہے
کسی سے کچھ شکایت ہے نہ شکوہ ہے

کہ میں تو درد کا موسم ہوں
اپنے آپ میں پلتا ہوں اپنے آپ میں جیتا ہوں

اپنے آنسوؤں میں بھیگتا ہوں مسکراتا ہوں
مگر سب لوگ کہتے ہیں

تجھے جینا نہیں آتا