EN हिंदी
میرے ملنے والے | شیح شیری
mere milne wale

نظم

میرے ملنے والے

فیض احمد فیض

;

وہ در کھلا میرے غم کدے کا
وہ آ گئے میرے ملنے والے

وہ آ گئی شام اپنی راہوں میں
فرش افسردگی بچھانے

وہ آ گئی رات چاند تاروں کو
اپنی آزردگی سنانے

وہ صبح آئی دمکتے نشتر سے
یاد کے زخم کو منانے

وہ دوپہر آئی، آستیں میں
چھپائے شعلوں کے تازیانے

یہ آئے سب میرے ملنے والے
کہ جن سے دن رات واسطا ہے

پہ کون کب آیا، کب گیا ہے
نگاہ و دل کو خبر کہاں ہے

خیال سوئے وطن رواں ہے
سمندروں کی ایال تھامے

ہزار وہم و گماں سنبھالے
کئی طرح کے سوال تھامے