EN हिंदी
میں زندہ ہوں | شیح شیری
main zinda hun

نظم

میں زندہ ہوں

عبید اللہ علیم

;

آخری رات تھی وہ
میں نے دل سے یہ کہا

حرف جو لکھے گئے
اور جو زباں بولی گئی

سبھی بیکار گئے
میں بھی اب ہار گیا یار بھی سب ہار گئے

کوئی چارہ نہیں جز ترک تعلق اے دل
اک صدا اور سہی آخری بار

جسم سے چھیڑا اسے روح سے چھو لے اسے
آخری بار بہے ساز بدن سے کوئی نغمہ کوئی لے

آخری رات ہے یہ
آخری بار ہے یہ ذائقۂ بوسہ و لمس

آخری بار چھلک جائے لہو
گرمیٔ جاں سے مہک جائے نفس کی خوشبو

خواب میں خواب کے مانند اتر جا اے دل
آخری رات تھی وہ

پھر گزر کوئے ندامت سے ہوا تو دیکھا
بام روشن ہے جو تھا

اور دروازے پہ دستک ہے وہی
میرا قاتل در و دیوار پہ کچھ نقش بناتا ہے ابھی

انگلیاں خون سے تر دل کم ظرف کو ہے واہمۂ عرض ہنر
دن کی ہر بات ہوئی بے توقیر

رات ہے اور ضمیر
چشم ہے منتظر خواب دگر

خواب آتے ہیں ٹھہرتے ہیں چلے جاتے ہیں
اور قاتل کی سزا یہ بھی کہ میں زندہ ہوں