EN हिंदी
مگر یہ زخم یہ مرہم | شیح شیری
magar ye zaKHm ye marham

نظم

مگر یہ زخم یہ مرہم

جون ایلیا

;

تمہارے نام تمہارے نشاں سے بے سروکار
تمہاری یاد کے موسم گزرتے جاتے ہیں

بس ایک نذر بے ہجر و وصل ہے جس میں
ہم اپنے آپ ہی کچھ رنگ بھرتے جاتے ہیں

نہ وہ نشاط تصور کہ لو تم آ ہی گئے
نہ زخم دل کی ہے سوزش کوئی جو سہنی ہو

نہ کوئی وعدہ و پیماں کی شام ہے نہ سحر
نہ شوق کی ہے کوئی داستاں جو کہنی ہو

نہیں جو محمل لیلائے آرزو سر راہ
تو اب فضا میں فضا کے سوا کچھ اور نہیں

نہیں جو موج صبا میں کوئی شمیم پیام
تو اب صبا میں صبا کے سوا کچھ اور نہیں

اتار دے جو کنارے پہ ہم کو کشتیٔ‌‌ وہم
تو گرد و پیش کو گرداب ہی سمجھتے ہیں

تمہارے رنگ مہکتے ہیں خواب میں جب بھی
تو خواب میں بھی انہیں خواب ہی سمجھتے ہیں

نہ کوئی زخم نہ مرہم کہ زندگی اپنی
گزر رہی ہے ہر احساس کو گنوانے میں

مگر یہ زخم یہ مرہم بھی کم نہیں شاید
کہ ہم ہیں ایک زمیں پر اور اک زمانے میں