EN हिंदी
کوئی عاشق کسی محبوبہ سے! | شیح شیری
koi aashiq kisi mahbuba se!

نظم

کوئی عاشق کسی محبوبہ سے!

فیض احمد فیض

;

یاد کی راہ گزر جس پہ اسی صورت سے
مدتیں بیت گئی ہیں تمہیں چلتے چلتے

ختم ہو جائے جو دو چار قدم اور چلو
موڑ پڑتا ہے جہاں دشت فراموشی کا

جس سے آگے نہ کوئی میں ہوں نہ کوئی تم ہو
سانس تھامے ہیں نگاہیں کہ نہ جانے کس دم

تم پلٹ آؤ گزر جاؤ یا مڑ کر دیکھو
گرچہ واقف ہیں نگاہیں کہ یہ سب دھوکا ہے

گر کہیں تم سے ہم آغوش ہوئی پھر سے نظر
پھوٹ نکلے گی وہاں اور کوئی راہ گزر

پھر اسی طرح جہاں ہوگا مقابل پیہم
سایۂ زلف کا اور جنبش بازو کا سفر

Some Lover to His Beloved
دوسری بات بھی جھوٹی ہے کہ دل جانتا ہے

یاں کوئی موڑ کوئی دشت کوئی گھات نہیں
جس کے پردے میں مرا ماہ رواں ڈوب سکے

تم سے چلتی رہے یہ راہ، یونہی اچھا ہے
تم نے مڑ کر بھی نہ دیکھا تو کوئی بات نہیں

This path of memory on which you have been trudging
for ages

if you press on a few steps further, it will wind off
to where one encounters the wilderness of oblivion,

at the bend beyond which neither I exist, nor you.
The eyes hold their breath and wonder

if you'd come back, pass by, or look back.