EN हिंदी
خزاں موسم نہیں ہے | شیح شیری
KHizan mausam nahin hai

نظم

خزاں موسم نہیں ہے

پیرزادہ قاسم

;

خزاں موسم نہیں ہے
ایک لمحہ ہے کہ جس کی آرزو میں

سبز پتے
ہوا کی آہٹوں پر کان دھرتے ہیں

گزرتے وقت میں ساعت بہ ساعت
نئے پیراہنوں میں

گلابی اور گہرے سرخ عنابی
دہکتے خوش نما رنگوں سے لے کر زرد ہونے تک

کبھی دھیمے کبھی اونچے سروں میں بات کرتی
خوشبوؤں میں بس بسا کر

ہوا کے ساتھ محو رقص ہونا چاہتے ہیں
زمیں کا رزق بن جانے سے پہلے

وہی اک اجنبی وارفتگی اور رقص کا لمحہ
کہیں پر دور آئندہ کے موسم کی سماعت میں

کسی سوئے ہوئے اک بیج میں
خواہش نمو کی سر اٹھاتی ہے

بہت ہی پیار سے ہر شاخ کے پتے سے کہتی ہے
کہ اب رزق زمیں بن کر

کسی اک نرم کونپل کی نمو کا آسرا بن جا
خزاں موسم نہیں ہے

اک مسرت خیز تخلیق‌‌ عمل کا آسرا ہے