EN हिंदी
کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی | شیح شیری
karoge yaad to har baat yaad aaegi

نظم

کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی

بشر نواز

;

کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی
گزرتے وقت کی ہر موج ٹھہر جائے گی

یہ چاند بیتے زمانوں کا آئنہ ہوگا
بھٹکتے ابر میں چہرہ کوئی بنا ہوگا

اداس راہ ہے کوئی داستاں سنائے گی
کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی

برستا بھیگتا موسم دھواں دھواں ہوگا
پگھلتی شمع پہ چہرہ کوئی گماں ہوگا

ہتھیلیوں کی حنا یاد کچھ دلائے گی
کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی

گلی کے موڑ پہ سونا سا کوئی دروازہ
ترستی آنکھ میں رستہ کسی کا دیکھے گا

نگاہ دور تلک جا کے لوٹ آئے گی
کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی