EN हिंदी
انتظار | شیح شیری
intizar

نظم

انتظار

ندا فاضلی

;

مدتیں بیت گئیں
تم نہیں آئیں اب تک

روز سورج کے بیاباں میں
بھٹکتی ہے حیات

چاند کے غار میں
تھک ہار کے سو جاتی ہے رات

پھول کچھ دیر مہکتا ہے
بکھر جاتا ہے

ہر نشہ
لہر بنانے میں اتر جاتا ہے

وقت!
بے چہرہ ہواؤں سا گزر جاتا ہے

کسی آواز کے سبزے میں لہک جیسی تم
کسی خاموش تبسم میں چمک جیسی تم

کسی چہرے میں مہکتی ہوئی آنکھوں جیسی
کہیں ابرو کہیں گیسو کہیں بانہوں جیسی

چاند سے
پھول تلک

یوں تو تمہیں تم ہو مگر
تم کوئی چہرہ کوئی جسم کوئی نام نہیں

تم جہاں بھی ہو
ادھوری ہو حقیقت کی طرح

تم کوئی خواب نہیں ہو
جو مکمل ہوگی