EN हिंदी
ہمالہ | شیح شیری
himala

نظم

ہمالہ

علامہ اقبال

;

اے ہمالہ اے فصیل کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں

تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تو جواں ہے گردش شام و سحر کے درمیاں

ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے
تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لیے

امتحان دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تو
پاسباں اپنا ہے تو دیوار ہندستاں ہے تو

مطلع اول فلک جس کا ہو وہ دیواں ہے تو
سوئے خلوت گاہ دل دامن کش انساں ہے تو

برف نے باندھی ہے دستار فضیلت تیرے سر
خندہ زن ہے جو کلاہ مہر عالم تاب پر

تیری عمر رفتہ کی اک آن ہے عہد کہن
وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن

چوٹیاں تیری ثریا سے ہیں سرگرم سخن
تو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن

چشمۂ دامن ترا آئینہ سیال ہے
دامن موج ہوا جس کے لیے رومال ہے

ابر کے ہاتھوں میں رہوار ہوا کے واسطے
تازیانہ دے دیا برق سر کوہسار نے

اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تو بھی جسے
دست قدرت نے بنایا ہے عناصر کے لیے

ہائے کیا فرط طرب میں جھومتا جاتا ہے ابر
فیل بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر

جنبش موج نسیم صبح گہوارہ بنی
جھومتی ہے نشۂ ہستی میں ہر گل کی کلی

یوں زباں برگ سے گویا ہے اس کی خامشی
دست گلچیں کی جھٹک میں نے نہیں دیکھی کبھی

کہہ رہی ہے میری خاموشی ہی افسانہ مرا
کنج خلوت خانۂ قدرت ہے کاشانہ مرا

آتی ہے ندی فراز کوہ سے گاتی ہوئی
کوثر و تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی

آئینہ سا شاہد قدرت کو دکھلاتی ہوئی
سنگ رہ سے گاہ بچتی گاہ ٹکراتی ہوئی

چھیڑتی جا اس عراق دل نشیں کے ساز کو
اے مسافر دل سمجھتا ہے تری آواز کو

لیلئ شب کھولتی ہے آ کے جب زلف رسا
دامن دل کھینچتی ہے آبشاروں کی صدا

وہ خموشی شام کی جس پر تکلم ہو فدا
وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا

کانپتا پھرتا ہے کیا رنگ شفق کوہسار پر
خوش نما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پر

اے ہمالہ داستاں اس وقت کی کوئی سنا
مسکن آبائے انساں جب بنا دامن ترا

کچھ بتا اس سیدھی سادھی زندگی کا ماجرا
داغ جس پر غازۂ رنگ تکلف کا نہ تھا

ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو