EN हिंदी
ہجرت | شیح شیری
hijrat

نظم

ہجرت

ندا فاضلی

;

ضروری کاغذوں کی فائلوں سے
بے ضروری

کاغذوں کو
چھانٹا جاتا ہے

کبھی کچھ پھینکا جاتا ہے
کبھی کچھ بانٹا جاتا ہے

کئی برسوں کے رشتوں کو
پلوں میں

کاٹا جاتا ہے
وہ شیشہ ہو

کہ پتھر ہو
بنا دم کا وہ بندر ہو

نشانوں سے بھرا
یا کوئی بوسیدہ کلنڈر ہو

پرانے گھر کے طاقوں میں
مچانوں میں

وہ سب!!
چھوٹا ہوا اپنا

کبھی بن کر کوئی آنسو
کبھی بن کر کوئی سپنا

اچانک
جگمگاتا ہے

وہ سب کھویا ہوا
اپنے نہ ہونے سے ستاتا ہے

مکانوں کے بدلنے سے
نئے خانوں میں ڈھلنے سے

بہت کچھ ٹوٹ جاتا ہے
بہت کچھ چھوٹ جاتا ہے