EN हिंदी
ہمیشہ قتل ہو جاتا ہوں میں | شیح شیری
hamesha qatl ho jata hun main

نظم

ہمیشہ قتل ہو جاتا ہوں میں

جون ایلیا

;

بساط زندگی تو ہر گھڑی بچھتی ہے اٹھتی ہے
یہاں پر جتنے خانے جتنے گھر ہیں

سارے
خوشیاں اور غم انعام کرتے ہیں

یہاں پر سارے مہرے
اپنی اپنی چال چلتے ہیں

کبھی محصور ہوتے ہیں کبھی آگے نکلتے ہیں
یہاں پر شہہ بھی پڑتی ہے

یہاں پر مات ہوتی ہے
کبھی اک چال ٹلتی ہے

کبھی بازی پلٹتی ہے
یہاں پر سارے مہرے اپنی اپنی چال چلتے ہیں

مگر میں وہ پیادہ ہوں
جو ہر گھر میں

کبھی اس شہہ سے پہلے اور کبھی اس مات سے پہلے
کبھی اک برد سے پہلے کبھی آفات سے پہلے

ہمیشہ قتل ہو جاتا ہے