EN हिंदी
حمل سرا | شیح شیری
hamal-sara

نظم

حمل سرا

ساقی فاروقی

;

دادی اماں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بستی کے سب سے ممتاز

گھرانے کی بیٹی۔۔۔۔۔۔
سب سے معزز

آنگن کی دلہن
ماشاء اللہ

ستر کے پیٹے میں ہوں گی)
۔۔۔۔۔۔اپنا استحقاق مانگتی ہیں

دادا جان کہ
دس کم ساٹھ برس تک ان سے

اندھی گھپ کالی راتوں میں
چھپ چھپ کے ملنے آئے

بیوی کی زرخیز آنکھوں میں
صرف اولاد نرینہ کے

خواب اگا کے چلے گئے۔۔۔۔۔۔
یہ شوہر کے رستے میں

حائل نہ ہوئیں
دل کے ٹکڑے

ہوسٹلوں میں پلے بڑھے
حیف کہ ان کے دکھ سکھ میں

شامل نہ ہوئیں
دادا جان کی سخت طبیعت نے

اس کا موقع ہی نہ دیا
یہ وہ ناطق

جو خاموش رہیں.........
اس نازیبا خاموشی میں

آگ لگانے کے دن آئے
اب اپنے چقماق مانگتی ہیں۔۔۔

ان کے اندر تنہائی کا زہر اترتا چلا گیا
(اور زمانہ

ارد گرد سے
پرچھائیں کی طرح گزرتا چلا گیا)

سوگ میں ہیں،
تریاق مانگتی ہیں۔۔۔۔۔۔

ایک جنم تک
اندھی گونگی بہری بن کے

اپنے ہی گھر میں بے دخل،
بے قدری کے سخی حسن میں دفن رہیں

آج نئے آفاق مانگتی ہیں
دادی اماں طلاق مانگتی ہیں