EN हिंदी
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے | شیح شیری
hum jo tarik rahon mein mare gae

نظم

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

فیض احمد فیض

;

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے

تیرے ہاتوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی

تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی

جب گھلی تیری راہوں میں شام ستم
ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم

لب پہ حرف غزل دل میں قندیل غم
اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی

دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں پہ مارے گئے

نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی

کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملے

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے

جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے

کر چلے جن کی خاطر جہانگیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے