EN हिंदी
دھرتی امر ہے | شیح شیری
dharti amar hai

نظم

دھرتی امر ہے

سلام ؔمچھلی شہری

;

ذرا آہستہ بول
آہستہ

دھرتی سہم جائے گی
یہ دھرتی پھول اور کلیوں کی سندر سج ہے ناداں

گرج کر بولنے والوں سے کلیاں روٹھ جاتی ہیں
ذرا آہستہ چل

آہستہ
دھرتی ماں کا ہردے ہے

اسی ہردے میں تیرے واسطے بھی پیار ہے ناداں
برا ہوتا ہے جب دھرتی کسی سے تنگ آتی ہے

تری آواز
جیسے بڑھ رہے ہوں جنگ کے شعلے

تری چال
آج ہی گویا اٹھیں گے حشر کے فتنے

مگر نادان یہ پھولوں کی دھرتی غیر فانی ہے
کئی جنگیں ہوئیں لیکن زمیں اب تک سہانی ہے