EN हिंदी
دست تۂ سنگ آمدہ | شیح شیری
dast-e-tah-e-sang-amada

نظم

دست تۂ سنگ آمدہ

فیض احمد فیض

;

بیزار فضا درپئے آزار صبا ہے
یوں ہے کہ ہر اک ہمدم دیرینہ خفا ہے

ہاں بادہ کشو آیا ہے اب رنگ پہ موسم
اب سیر کے قابل روش آب و ہوا ہے

امڈی ہے ہر اک سمت سے الزام کی برسات
چھائی ہوئی ہر دانگ ملامت کی گھٹا ہے

وہ چیز بھری ہے کہ سلگتی ہے صراحی
ہر کاسۂ مے زہر ہلاہل سے سوا ہے

ہاں جام اٹھاؤ کہ بیاد لب شیریں
یہ زہر تو یاروں نے کئی بار پیا ہے

اس جذبۂ دل کی نہ سزا ہے نہ جزا ہے
مقصود رہ شوق وفا ہے نہ جفا ہے

احساس غم دل جو غم دل کا صلہ ہے
اس حسن کا احساس ہے جو تیری عطا ہے

ہر صبح گلستاں ہے ترا روئے بہاریں
ہر پھول تری یاد کا نقش کف پا ہے

ہر بھیگی ہوئی رات تری زلف کی شبنم
ڈھلتا ہوا سورج ترے ہونٹوں کی فضا ہے

ہر راہ پہنچتی ہے تری چاہ کے در تک
ہر حرف تمنا ترے قدموں کی صدا ہے

تعزیر سیاست ہے نہ غیروں کی خطا ہے
وہ ظلم جو ہم نے دل وحشی پہ کیا ہے

زندان رہ یار میں پابند ہوئے ہم
زنجیر بکف ہے نہ کوئی بند بپا ہے

''مجبوری و دعویٔ گرفتارئ الفت
دست تۂ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے''