EN हिंदी
در امید کے دریوزہ گر | شیح شیری
dar-e-umid ke daryuza-gar

نظم

در امید کے دریوزہ گر

فیض احمد فیض

;

پھر پھریرے بن کے میرے تن بدن کی دھجیاں
شہر کے دیوار و در کو رنگ پہنانے لگیں

پھر کف آلودہ زبانیں مدح و ذم کی قمچیاں
میرے ذہن و گوش کے زخموں پہ برسانے لگیں

پھر نکل آئے ہوسناکوں کے رقصاں طائفے
دردمند عشق پر ٹھٹھے لگانے کے لیے

پھر دہل کرنے لگے تشہیر اخلاص و وفا
کشتۂ صدق و صفا کا دل جلانے کے لیے

ہم کہ ہیں کب سے در امید کے دریوزہ گر
یہ گھڑی گزری تو پھر دست طلب پھیلائیں گے

کوچہ و بازار سے پھر چن کے ریزہ ریزہ خواب
ہم یونہی پہلے کی صورت جوڑنے لگ جائیں گے