EN हिंदी
'شوپیں' کا نغمہ بجتا ہے | شیح شیری
chopin ka naghma bajta hai

نظم

'شوپیں' کا نغمہ بجتا ہے

فیض احمد فیض

;

(۲)
چھلنی ہے اندھیرے کا سینہ، برکھا کے بھالے برسے ہیں

دیواروں کے آنسو ہیں رواں، گھر خاموشی میں ڈوبے ہیں
پانی میں نہائے ہیں بوٹے

گلیوں میں ہو کا پھیرا ہے
'شوپیں' کا نغمہ بجتا ہے

اک غمگیں لڑکی کے چہرے پر چاند کی زردی چھائی ہے
جو برف گری تھی اس پہ لہو کے چھینٹوں کی رشنائی ہے

خوں کا ہر داغ دمکتا ہے
شوپیںؔ کا نغمہ بجتا ہے

کچھ آزادی کے متوالے، جاں کف پہ لیے میداں میں گئے
ہر سو دشمن کا نرغہ تھا، کچھ بچ نکلے، کچھ کھیت رہے

عالم میں ان کا شہرہ ہے
شوپیںؔ کا نغمہ بجتا ہے

اک کونج کو سکھیاں چھوڑ گئیں آکاش کی نیلی راہوں میں
وہ یاد میں تنہا روتی تھی، لپٹائے اپنی باہوں میں

اک شاہیں اس پر جھپٹا ہے
شوپیںؔ کا نغمہ بجتا ہے

غم نے سانچے میں ڈھالا ہے
اک باپ کے پتھر چہرے کو

مردہ بیٹے کے ماتھے کو
اک ماں نے رو کر چوما ہے

شوپیںؔ کا نغمہ بجتا ہے
پھر پھولوں کی رت لوٹ آئی

اور چاہنے والوں کی گردن میں جھولے ڈالے باہوں نے
پھر جھرنے ناچے چھن چھن چھن

اب بادل ہے نہ برکھا ہے
'شوپیں' کا نغمہ بجتا ہے