EN हिंदी
چلا آ رہا ہوں سمندروں کے وصال سے | شیح شیری
chala aa raha hun samundaron ke visal se

نظم

چلا آ رہا ہوں سمندروں کے وصال سے

ن م راشد

;

چلا آ رہا ہوں سمندروں کے وصال سے
کئی لذتوں کا ستم لیے

جو سمندروں کے فسوں میں ہیں
مرا ذہن ہے وہ صنم لیے

وہی ریگ زار ہے سامنے
وہی ریگ زار کہ جس میں عشق کے آئنے

کسی دست غیب سے ٹوٹ کر
رہ تار جاں میں بکھر گئے!

ابھی آ رہا ہوں سمندروں کی مہک لیے
وہ تھپک لیے جو سمندروں کی نسیم میں

ہے ہزار رنگ سے خواب ہائے خنک لیے
چلا آ رہا ہوں سمندروں کا نمک لیے

یہ برہنگئ عظیم تیری دکھاؤں میں
(جو گدا گری کا بہانہ ہے)

کوئی راہرو ہو تو اس سے راہ کی داستاں
میں سنوں فسانہ سمندروں کا سناؤں میں

(کہ سمندروں کا فسانہ عشق کی گسترش کا فسانہ ہے)
یہ برہنگی جسے دیکھ کر بڑھیں دست و پا نہ کھلے زباں

نہ خیال ہی میں رہے تواں
تو وہ ریگ زار کہ جیسے رہزن پیر ہو

جسے تاب راہزنی نہ ہو
کہ مثال طائر نیم جاں

جسے یاد بال و پری نہ ہو
کسی راہرو سے امید رحم و کرم لیے

میں بھرا ہوا ہوں سمندروں کے جلال سے
چلا آ رہا ہوں میں ساحلوں کا حشم لیے

ہے ابھی انہی کی طرف مرا در دل کھلا
کہ نسیم خندہ کو رہ ملے

مری تیرگی کو نگہ ملے
وہ سرور و سوز صدف ابھی مجھے یاد ہے

ابھی چاٹتی ہے سمندروں کی زباں مجھے
مرے پاؤں چھو کے نکل گئی کوئی موج ساز بکف ابھی

وہ حلاوتیں مرے ہست و بود میں بھر گئیں
وہ جزیرے جن کے افق ہجوم سحر سے دید بہار تھے

وہ پرندے اپنی طلب میں جو سر کار تھے
وہ پرندے جن کی صفیر میں تھیں رسالتیں

ابھی اس صفیر کی جلوتیں مرے خوں میں ہیں
ابھی ذہن ہے وہ صنم لیے

جو سمندروں کے فسوں میں ہیں
چلا آ رہا ہوں سمندروں کے جمال سے

صدف و کنار کا غم لیے