EN हिंदी
چکلے | شیح شیری
chakle

نظم

چکلے

قتیل شفائی

;

رات گئے تک گھایل نغمے کرتے ہیں اعلان یہاں
یہ دنیا ہے سنگ دلوں کی کوئی نہیں انسان یہاں

عزت والوں کی ذلت کا سب سے بڑا بازار ہے یہ
چکتے ہیں غیرت کے سودے بکتے ہیں ایمان یہاں

بھیک میں بھی مانگو تو کوئی پیار نہ ڈالے جھولی میں
بن مانگے مل جاتے ہیں رسوائی کے سامان یہاں

زر داروں کو نغموں میں جب جسم دکھائی دیتا ہے
ایک مہکتی سیج پہ اکثر ٹوٹتی ہے ہر تان یہاں

ممتا کے ہونٹوں پر جب چاندی کی مہریں لگتی ہیں
ماں خود اپنی بیٹی کو کر دیتی ہے قربان یہاں

اپنا خون ہی بڑھ کر اپنے خون کی بولی دیتا ہے
کس نے کس پر ہاتھ بڑھایا کوئی نہیں پہچان یہاں

پاپ کے اس مندر میں کیا کیا بھاؤ بتائے رام جنی
شام ڈھلے جب آن براجیں سونے کے بھگوان یہاں

رات گئے تک جاگے سانولی کالے چوروں کی خاطر
اور اگر انکار کرے کہلائے نا فرمان یہاں

جھلمل کرتی پوشاکوں سے چاہے بدبو آتی ہو
خود جل کر محفل کو خوشبو دیتا ہے لوبان یہاں