EN हिंदी
بے چارگی | شیح شیری
be-chaargi

نظم

بے چارگی

اختر الایمان

;

ہزار بار ہوا یوں کہ جب امید گئی
گلوں سے رابطہ ٹوٹا نہ خار اپنے رہے

گماں گزرنے لگا ہم کھڑے ہیں صحرا میں
فریب کھانے کی جا رہ گئی، نہ سپنے رہے

نظر اٹھا کے کبھی دیکھ لیتے تھے اوپر
نہ جانے کون سے اعمال کی سزا ہے کہ آج

یہ واہمہ بھی گیا سر پہ آسماں ہے کوئی