EN हिंदी
برسات کی ایک رات | شیح شیری
barsat ki ek raat

نظم

برسات کی ایک رات

کیفی اعظمی

;

یہ برسات یہ موسم شادمانی
خس و خار پر پھٹ پڑی ہے جوانی

بھڑکتا ہے رہ رہ کے سوز محبت
جھما جھم برستا ہے پر شور پانی

فضا جھومتی ہے گھٹا جھومتی ہے
درختوں کو ضو برق کی چومتی ہے

تھرکتے ہوئے ابر کا جذب توبہ
کہ دامن اٹھائے زمیں گھومتی ہے

کڑکتی ہے بجلی چمکتی ہیں بوندیں
لپکتا ہے کوندا دمکتی ہیں بوندیں

رگ جاں پہ رہ رہ کے لگتی ہیں چوٹیں
چھما چھم خلا میں کھنکتی ہیں بوندیں

فلک گا رہا ہے زمیں گا رہی ہے
کلیجے میں ہر لے چبھی جا رہی ہے

مجھے پا کے اس مست شب میں اکیلا
یہ رنگیں گھٹا تیر برسا رہی ہے

چمکتا ہے بجھتا ہے تھرا رہا ہے
بھٹکنے کی جگنو سزا پا رہا ہے

ابھی ذہن میں تھا یہ روشن تخیل
فضا میں جو اڑتا چلا جا رہا ہے

لچک کر سنبھلتے ہیں جب ابر پارے
برستے ہیں دامن سے دم دار تارے

مچلتی ہے رہ رہ کے بالوں میں بجلی
گلابی ہوئے جا رہے ہیں کنارے

فضا جھوم کر رنگ برسا رہی ہے
ہر اک سانس شعلہ بنی جا رہی ہے

کبھی اس طرح یاد آتی نہیں تھی
وہ جس طرح اس وقت یاد آ رہی ہے

بھلا لطف کیا منظر پر اثر دے
کہ اشکوں نے آنکھوں پہ ڈالے ہیں پردے

کہیں اور جا کر برس مست بادل
خدا تیرا دامن جواہر سے بھر دے