EN हिंदी
بمبئی | شیح شیری
bambai

نظم

بمبئی

علی سردار جعفری

;

سبز و شاداب ساحل
ریت کے اور پانی کے گیت

مسکراتے سمندر کا سیال چہرہ
چاند سورج کے ٹکڑے

لاکھوں آئینے موجوں میں بکھرے ہوئے
کشتیاں بادبانوں کے آنچل میں اپنے سروں کو چھپائے ہوئے

جال نیلے سمندر میں ڈوبے ہوئے
خاک پر سوکھتی مچھلیاں

گھاٹنیں پتھروں کی وہ ترشی ہوئی مورتیں
ایلیفینٹا کے غاروں سے جو رقص کرتی نکل آئی ہیں

راتیں آنکھوں میں جادو کا کاجل لگائے ہوئے
شامیں نیلی ہوا کی نمی میں نہائی ہوئی

صبحیں شبنم کے باریک ملبوس پہنے ہوئے
خواب آلود کہسار کے سلسلے

جنگلوں کے گھنے سائے
مٹی کی خوشبو

مہکتی ہوئی کونپلیں
پتھروں کی چٹانیں

اپنی بانہوں کو بحر عرب میں سمیٹے ہوئے
وہ چٹانوں پہ رکھے ہوئے اونچے اونچے محل

چکنی دیواروں پر
قتل، غارتگری، بزدلی، نفع خوری کی پرچھائیاں

ریشمی ساریاں
مخملیں جسم، زہریلے ناخونوں کی بلیاں

خون کی پیاس کھادی کے پیراہنوں میں
جگمگاتے ہوئے قمقمے، پارک، باغات اور میوزیم

سنگ مرمر کے بت، دھات کے آدمی
سرد و سنگین عظمت کے پیکر

آنکھیں بے نور، لب بے صدا، ہاتھ بے جان
ہند کی بے بسی اور محکومی کی یادگاریں

سیکڑوں سال کے گرم آتش کدے
زر و صندل کی آگ

عود و عنبر کے شعلے
''چالیں'' افلاس کی گرد، تاریکیاں

گندگی اور عفونت
گھورے سڑتے ہوئے

رہ گزاروں پہ سوتے ہوئے آدمی
ٹاٹ پر، اور کاغذ کے ٹکڑوں پہ پھیلے ہوئے جسم، سوکھے ہوئے ہاتھ

زخم کی آستینوں سے نکلی ہوئی ہڈیاں
کوڑھیوں کے ہجوم

''کھولیاں'' جیسے اندھے کنویں
گرم سینوں، محبت کی گودوں سے محروم بچے

بکریوں کی طرح رسیوں سے بندھے
ان کی مائیں ابھی کارخانوں سے واپس نہیں آئی ہیں

چمنیاں بھتنیوں کی طرح بال کھولے ہوئے
کارخانے گرجتے ہوئے

خون کی اور پسینے کی بو میں شرابور
خون سرمایہ داری کے نالوں میں بہتا ہوا

بھٹیوں میں ابلتا ہوا
سرد سکوں کی صورت میں جمتا ہوا

سونے چاندی میں تبدیل ہوتا ہوا
بنک کی کھڑکیوں میں چراغاں

سڑکیں دن رات چلتی ہوئی
سانس لیتی ہوئی

آدمی خواہشوں کے اندھیرے نشیبوں میں سیلاب کی طرح بہتے ہوئے
چور بازار، سٹا، جواری

ریس کے گھوڑے، سرکار کے منتری
سنیما، لڑکیاں، ایکٹر، مسخرے

ایک اک چیز بکتی ہوئی
گاجریں، مولیاں، ککڑیاں

جسم اور ذہن اور شاعری
علم، حکمت، سیاست

انکھڑیوں اور ہونٹوں کے نیلام گھر
عارضوں کی دکانیں

بازوؤں اور سینوں کے بازار
پنڈلیوں اور رانوں کے گودام

دیش بھگتی کے دلال کھادی کے بیوپاری
عقل، انصاف، پاکیزگی، اور صداقت کے تاجر

یہ ہے ہندوستاں کی عروس البلاد
سرزمین دکن کی دلہن بمبئی

ایک جنت جہنم کی آغوش میں
یا اسے یوں کہوں

ایک دوزخ ہے فردوس کی گود میں
یہ مرا شہر ہے

گو مرا جسم اس خاکداں سے نہیں
میری مٹی یہاں سے بہت دور گنگا کے پانی سے گوندھی گئی ہے

میرے دل میں ہمالہ کے پھولوں کی خوشبو بسی ہے
پھر بھی اے بمبئی تو مرا شہر ہے

تیرے باغات میں میری یادوں کے کتنے ہی رم خوردہ آہو
میں نے تیرے پہاڑوں کی ٹھنڈی ہوا کھائی ہے

تیری شفاف جھیلوں کا پانی پیا ہے
تیرے ساحل کی ہنستی ہوئی سیپیاں مجھ کو پہچانتی ہیں

ناریل کے درختوں کی لمبی قطاریں
تیرے نیلے سمندر کے طوفان اور قہقہے

تیرے دل کش مضافات کے سبزہ زاروں کی خاموشیاں
رنگتیں، نکہتیں، سب مجھے جانتی ہیں

اس جگہ میرے خوابوں کو آنکھیں ملیں
اور میری محبت کے بوسوں نے اپنے حسین ہونٹ حاصل کیے

بمبئی
تیرے سینے میں سرمایہ کا زہر بھی

انقلاب اور بغاوت کا تریاق بھی
تیرے پہلو میں فولاد کا قلب ہے

تیری نبضوں میں مزدور و ملاح کا خون ہے
تیری آغوش میں کارخانوں کی دنیا بسی ہے

سیوری، لال باغ اور پریل
اور یہاں تیرے بیٹے تری بیٹیاں

ان کی دکھتی ہوئی انگلیاں
سوت کے ایک اک تار سے

ملک کے قاتلوں کا کفن بن رہی ہیں