EN हिंदी
اگست1955 | شیح شیری
august1955

نظم

اگست1955

فیض احمد فیض

;

شہر میں چاک گریباں ہوئے ناپید اب کے
کوئی کرتا ہی نہیں ضبط کی تاکید اب کے

لطف کر اے نگۂ یار کہ غم والوں نے
حسرت دل کی اٹھائی نہیں تمہید اب کے

چاند دیکھا تری آنکھوں میں نہ ہونٹوں پہ شفق
ملتی جلتی ہے شب غم سے تری دید اب کے

دل دکھا ہے نہ وہ پہلا سا نہ جاں تڑپی ہے
ہم ہی غافل تھے کہ آئی ہی نہیں عید اب کے

پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی
لا کے رکھو سر محفل کوئی خورشید اب کے