EN हिंदी
اشک آباد کی شام | شیح شیری
ashgabad ki sham

نظم

اشک آباد کی شام

فیض احمد فیض

;

جب سورج نے جاتے جاتے
اشک آباد کے نیلے افق سے

اپنے سنہری جام
میں ڈھالی

سرخئ اول شام
اور یہ جام

تمہارے سامنے رکھ کر
تم سے کیا کلام

کہا پرنام
اٹھو

اور اپنے تن کی سیج سے اٹھ کر
اک شیریں پیغام

ثبت کرو اس شام
کسی کے نام

کنار جام
شاید تم یہ مان گئیں اور تم نے

اپنے لب گلفام
کیے انعام

کسی کے نام
کنار جام

یا شاید
تم اپنے تن کی سیج پہ سج کر

تھیں یوں محو آرام
کہ رستے تکتے تکتے

بجھ گئی شمع جام
اشک آباد کے نیلے افق پر

غارت ہو گئی شام