EN हिंदी
اپاہج گاڑی کا آدمی | شیح شیری
apahij gaDi ka aadmi

نظم

اپاہج گاڑی کا آدمی

اختر الایمان

;

کچھ ایسے ہیں جو زندگی کو مہ و سال سے ناپتے ہیں
گوشت سے ساگ سے دال سے ناپتے ہیں

خط و خال سے گیسوؤں کی مہک چال سے ناپتے ہیں
صعوبت سے جنجال سے ناپتے ہیں

یا اپنے اعمال سے ناپتے ہیں
مگر ہم اسے عزم پامال سے ناپتے ہیں

یہ لمحہ جو گزرا مرے خون کی اس میں سرخی ملی ہے؟
مرے آنسوؤں کا نمک اس کی لذت میں شامل ہوا ہے؟

پسینے سے گرداب ساحل ہوا ہے؟
یہ لا کا سفر لا رہے گا کہ کچھ اس کا حاصل ہوا ہے

کہ جیسے تھی برسوں سے ویسی ہی تشنہ دلی ہے؟
میں کب سے زمیں پر زمیں کی طرح چل رہا ہوں

یہ دیوانہ اندھا سفر کب کہاں جا کے چھوڑے گا مجھ کو؟
میں اس زندگی کی بہت سی بہاریں غذا کی طرح کھا چکا ہوں

پہن اوڑھ کر پیرہن کی طرح پھاڑ دی ہیں
میں ریشم کا کیڑا ہوں کویے میں چھپ جاتا ہوں ڈر کے مارے

اسی کویے کو کھاتا رہتا ہوں اور کاٹ کر اس سے آتا ہوں باہر
اور اپنے جینے کا مقصد سبب جاننا چاہتا ہوں

مرا دل خدا کی رضا ڈھونڈھتا پھر رہا ہے
مرا جسم لذات کی جستجو میں لگا ہے

گزر گاہ شام و سحر پر کہیں ایک دن میں اگا تھا
نباتات کی طرح جیتا ہوں اس کارگاہ جہاں میں

نہ احساس ایمان ایقان کوئی
نہ دنیا میں شامل نہ خود اپنی پہچان کوئی

گنہ اور جہنم ثواب اور جنت؟
یہ کیوں ہے کہ بے مزد کچھ بھی نہیں مل سکا ہے

نہ کل مل سکے گا
اساطیر فرماں رواؤں کے احکام اور صوفیا کی کرامت کے قصے

پیمبر کی دل سوزیوں کے مظاہر
قلم بند ہیں سب!

انہیں ہم نے تعویذ کی طرح اپنے گلوں میں حمائل کیا ہے
انہیں ہم نے تہہ خانوں کی کوٹھری میں مقفل کیا ہے

جہاں لڑکھڑاتے ہیں ان کی مدد لے کے چلتے ہیں آگے
مگر راستوں کا تعین نہیں ہے!

میں بکھرا ہوا آدمی ہوں
مری ذہنی بیماریوں کا سبب یہ زمیں ہے

میں اس دن سے ڈرتا ہوں جب برف ساری پگھل کر
اسے غرق کر دے

نئے آسمانی حوادث
صفر میں بدل دیں

یا آدمی اپنے اعمال سے خود
اسے اک کہانی بنا دے

زمیں شورہ پشتوں کی آماجگہ بن گئی ہے
خدا ایک ہے یوں تو واوین میں صاف لکھا ہوا ہے

مگر زیر واوین بھی چھوٹی چھوٹی بہت تختیاں ہیں
جلی حرف جن کے بہت امتوں کا پتہ دے رہے ہیں

جو یہ تختیاں اپنی گردن میں لٹکائے
زنار پہنے ہوئے کوئی تسبیح تھامے

اپنی گرد سفر کے دھند میں لپٹے چلے جا رہے ہیں
زیتون کی شاخ تلسی کے پتے

ہوا میں اڑے جا رہے ہیں
چیونٹیوں کی قطاریں قرن در قرن

مختلف پیچ در پیچ راہوں سے گزری چلی جا رہی ہیں
سیکڑوں سر کٹے دھڑ بہت راستوں پر پڑے ہیں

ہون ہو رہے ہیں
یگیہ کے منتروں کی صدا

آگ میں جلنے والی سامگری کی بہت تیز بو
ہر طرف پھیل کر بس گئی ہے ہوا میں

اور واوین کی قید میں جو خدا ہے
لا مکاں سے

جو ہوتا ہے ہوتا رہے گا
بیٹھا چپ چاپ سب دیکھتا ہے

ہم بھی کیوں نہ خدا کی طرح یونہی چپ سادھ لیں
پیڑ پودوں کی مانند جیتے رہیں

ذبح ہوتے رہیں!
وہ دعائیں جو بارود کی بو میں بس کر

بھٹکتی ہوئی زیر عرش بریں پھر رہی ہیں
انہیں بھول جائیں

زندگی کو خدا کی عطا جان کر ذہن ماؤف کر لیں
یاوہ گوئی میں یا ذہنی ہذیان میں خود کو مصروف کر لیں

ان میں مل جائیں جو زندگی کو
گوشت سے ساگ سے دال سے ناپتے ہیں

مہ و سال سے ناپتے ہیں
اپنا ہی خون پینے لگے ہیں

چاک دامانیاں غم سے سینے لگے ہیں