EN हिंदी
اندیشے | شیح شیری
andeshe

نظم

اندیشے

کیفی اعظمی

;

روح بے چین ہے اک دل کی اذیت کیا ہے
دل ہی شعلہ ہے تو یہ سوز محبت کیا ہے

وہ مجھے بھول گئی اس کی شکایت کیا ہے
رنج تو یہ ہے کہ رو رو کے بھلایا ہوگا

وہ کہاں اور کہاں کاہش غم، سوزش جاں
اس کی رنگین نظر اور نقوش حرماں

اس کا احساس لطیف اور شکست ارماں
طعنہ زن ایک زمانہ نظر آیا ہوگا

جھک گئی ہوگی جواں سال امنگوں کی جبیں
مٹ گئی ہوگی للک، ڈوب گیا ہوگا یقیں

چھا گیا ہوگا دھواں، گھوم گئی ہوگی زمیں
اپنے پہلے ہی گھروندے کو جو ڈھایا ہوگا

دل نے ایسے بھی کچھ افسانے سنائے ہوں گے
اشک آنکھوں نے پئے اور نہ بہائے ہوں گے

بند کمرے میں جو خط میرے جلائے ہوں گے
ایک اک حرف جبیں پر ابھر آیا ہوگا

اس نے گھبرا کے نظر لاکھ بچائی ہوگی
مٹ کے اک نقش نے سو شکل دکھائی ہوگی

میز سے جب مری تصویر ہٹائی ہوگی
ہر طرف مجھ کو تڑپتا ہوا پایا ہوگا

بے محل چھیڑ پہ جذبات ابل آئے ہوں گے
غم پشیمان تبسم میں ڈھل آئے ہوں گے

نام پر میرے جب آنسو نکل آئے ہوں گے
سر نہ کاندھے سے سہیلی کے اٹھایا ہوگا

زلف ضد کر کے کسی نے جو ہٹائی ہوگی
روٹھے جلووں پہ خزاں اور بھی چھائی ہوگی

برق عشووں نے کئی دن نہ گرائی ہوگی
رنگ چہرے پہ کئی روز نہ آیا ہوگا